آئینے کا آسیب (Aaine Ka Aaseb - The Specter of the Mirror)

Horror all age range 2000 to 5000 words Urdu

Story Content

ملتان کے قریب ایک چھوٹا سا گاؤں تھا، "چک نمبر 5"۔ گاؤں کا نام سادہ تھا اور زندگی بھی سیدھی سادی گزر رہی تھی۔ مگر ایک دن، زندگی میں ایک ایسا موڑ آیا جس نے سب کچھ بدل دیا۔
صابر نامی ایک لڑکا، جو چک نمبر 5 میں رہتا تھا، اپنے پرانے گھر کی صفائی کر رہا تھا۔ گھر بہت عرصے سے بند پڑا تھا اور دھول مٹی سے اٹا ہوا تھا۔
صابر کو اپنے دادا کی پرانی چیزوں میں سے ایک بڑا سا آئینہ ملا۔ آئینہ بہت وزنی تھا اور اس پر دھول کی موٹی تہہ جمی ہوئی تھی۔
اس نے آئینہ صاف کرنے کا ارادہ کیا۔ جیسے ہی اس نے کپڑے سے آئینہ صاف کیا، اس پر ایک عجیب منظر نظر آیا۔
آئینے کے اندر، بالکل صاف سطح پر، ایک ہاتھ کا نشان بنا ہوا تھا۔ یہ نشان کسی بڑے ہاتھ کا تھا، اور یہ باہر کی طرف دھکیل رہا تھا، گویا کوئی اندر سے اسے چھو رہا ہو۔
صابر خوفزدہ ہو گیا۔ اس نے پہلے کبھی ایسا نہیں دیکھا تھا۔ نشان اس کے اپنے ہاتھ سے بڑا تھا، اور عجیب بات یہ تھی کہ وہ اندر کی جانب سے بنا ہوا تھا۔
اس نے اس واقعے کے بارے میں اپنے دوست کامران کو بتایا۔ کامران ایک ذہین لڑکا تھا اور وہ ہر چیز کو منطقی انداز میں دیکھتا تھا۔
کامران نے کہا، "شاید یہ کوئی پرانا نشان ہو جو پہلے سے آئینے پر موجود ہو۔ تم نے صفائی کی تو وہ نظر آنے لگا۔"
لیکن صابر مطمئن نہیں تھا۔ اس نے کہا، "نہیں، کامران! میں نے خود دیکھا، نشان صاف کرنے کے بعد بنا ہے۔ اور یہ بہت ٹھنڈا تھا۔ جیسے برف کا ٹکڑا ہو۔"
اگلے دن، گاؤں میں ایک عجیب واقعہ پیش آیا۔ ایک عورت اپنے گھر میں بے ہوش پائی گئی۔ لوگوں نے بتایا کہ اس نے آدھی رات کو اپنے گھر میں کسی کی موجودگی محسوس کی تھی۔
پھر ایک اور واقعہ ہوا۔ ایک کسان اپنے کھیت میں کام کر رہا تھا جب اس نے محسوس کیا کہ کوئی اس کے پیچھے کھڑا ہے۔ جب وہ مڑا تو وہاں کوئی نہیں تھا۔
گاؤں میں خوف و ہراس پھیل گیا۔ لوگوں کو یقین ہونے لگا کہ گاؤں پر کوئی آسیب آیا ہے۔
صابر کو یقین تھا کہ ان واقعات کا تعلق اس آئینے سے ہے۔ اس نے کامران کو بتایا، "مجھے لگتا ہے کہ وہ ہاتھ کا نشان ایک دروازہ ہے۔ کوئی بری چیز اس آئینے کے ذریعے ہمارے گاؤں میں آ رہی ہے۔"
دونوں دوستوں نے فیصلہ کیا کہ وہ مل کر اس مسئلے کا حل نکالیں گے۔ انہوں نے آئینے کو ایک محفوظ جگہ پر رکھنے کا فیصلہ کیا۔
وہ آئینے کو گاؤں سے دور، ایک پرانی ویران عمارت میں لے گئے۔ وہ عمارت بہت سالوں سے خالی پڑی تھی اور لوگ اس سے ڈرتے تھے۔
جب وہ آئینے کو عمارت میں رکھ رہے تھے، صابر نے دیکھا کہ ہاتھ کا نشان دوبارہ آئینے پر نمودار ہو گیا ہے۔ اس بار، وہ پہلے سے زیادہ واضح اور خوفناک تھا۔
اس رات، گاؤں میں عجیب و غریب آوازیں سنائی دیں۔ لوگوں نے محسوس کیا کہ کوئی ان کے گھروں کے باہر گھوم رہا ہے۔ دروازے کھٹکھٹانے کی آوازیں آ رہی تھیں، لیکن جب وہ دروازہ کھولتے تو وہاں کوئی نہیں ہوتا تھا۔
صابر اور کامران ساری رات جاگتے رہے۔ وہ جانتے تھے کہ وہ آسیب گاؤں میں آزاد گھوم رہا ہے۔
صبح ہوئی تو انہوں نے دیکھا کہ عمارت کے ارد گرد کی زمین پر عجیب نشانات بنے ہوئے تھے۔ یہ نشانات کسی جانور کے پاؤں کے نہیں تھے، بلکہ کسی ایسی مخلوق کے تھے جو زمین پر گھسٹ کر چلتی تھی۔
صابر نے کہا، "ہمیں اس آئینے کو تباہ کرنا ہوگا۔ یہی واحد راستہ ہے۔"
لیکن کامران نے انکار کر دیا۔ اس کا کہنا تھا کہ آئینے کو تباہ کرنے سے مسئلہ حل نہیں ہو گا۔ بلکہ، وہ آسیب مزید طاقتور ہو جائے گا۔
ان دونوں دوستوں میں اختلاف ہو گیا۔ کامران نے کہا کہ وہ کسی ماہر سے مشورہ کرے گا، جبکہ صابر آئینے کو تباہ کرنے پر بضد تھا۔
کامران شہر گیا اور ایک سائنسدان سے ملا۔ سائنسدان نے ان کی بات سنی اور کہا کہ وہ اس معاملے کی تحقیق کرے گا۔
صابر نے کامران کا انتظار نہیں کیا۔ اس نے خود ہی آئینے کو تباہ کرنے کا فیصلہ کیا۔
وہ عمارت میں گیا اور اس نے آئینے پر پتھر مارا۔ آئینہ ٹوٹ گیا، لیکن جیسے ہی آئینہ ٹوٹا، ایک زور دار چیخ سنائی دی۔
صابر نے محسوس کیا کہ کوئی اسے پیچھے سے پکڑ رہا ہے۔ اس نے مڑ کر دیکھا تو وہاں کوئی نہیں تھا۔ لیکن اسے اپنی گردن پر کسی کے سرد ہاتھوں کا لمس محسوس ہوا۔
وہ خوف سے چیخا اور بھاگنے لگا۔ جب وہ عمارت سے باہر نکلا تو اس نے دیکھا کہ آسمان پر ایک سیاہ بادل چھا گیا ہے۔
اس رات، گاؤں پر ایک عجیب و غریب آفت نازل ہوئی۔ تیز ہوائیں چلنے لگیں اور بارش ہونے لگی۔
لیکن یہ عام بارش نہیں تھی۔ بارش کے ساتھ ساتھ خون کی بوندیں بھی گر رہی تھیں۔
لوگ خوف سے اپنے گھروں میں دبک گئے۔ انہوں نے ساری رات دعائیں مانگیں۔
اگلی صبح، بارش تھم گئی۔ لیکن گاؤں کا منظر بدل چکا تھا۔ ہر طرف تباہی پھیلی ہوئی تھی۔ درخت جڑوں سے اکھڑ چکے تھے اور گھروں کی چھتیں اڑ گئی تھیں۔
صابر کو کامران ملا۔ کامران نے بتایا کہ سائنسدان نے کہا ہے کہ آئینے میں ایک خاص قسم کی توانائی موجود تھی جو کسی دوسرے جہان سے رابطہ قائم کر سکتی تھی۔
سائنسدان نے یہ بھی بتایا کہ آئینے کو تباہ کرنے سے وہ توانائی منتشر ہو گئی اور اس نے گاؤں پر تباہی مچا دی۔
صابر کو اپنی غلطی کا احساس ہوا۔ اس نے آئینے کو تباہ کر کے گاؤں کو مزید خطرے میں ڈال دیا تھا۔
دونوں دوستوں نے فیصلہ کیا کہ وہ مل کر گاؤں کو دوبارہ تعمیر کریں گے۔ انہوں نے لوگوں کی مدد کی اور انہیں امید دلائی کہ وہ اس مشکل وقت سے نکل جائیں گے۔
لیکن گاؤں کے لوگوں کے دلوں میں وہ خوف ہمیشہ کے لیے بس گیا تھا۔ وہ آئینے کا آسیب کبھی نہیں بھول پائے۔
کچھ لوگوں کا کہنا تھا کہ انہوں نے اب بھی گاؤں میں وہ نشانات دیکھے ہیں جو زمین پر گھسٹنے والی مخلوق نے چھوڑے تھے۔
اور کچھ لوگوں کا یہ بھی کہنا تھا کہ انہیں اب بھی آدھی رات کو دروازے کھٹکھٹانے کی آوازیں آتی ہیں۔
چک نمبر 5 کی کہانی ایک عبرت ناک داستان بن گئی۔ لوگوں کو معلوم ہوا کہ ہر چیز کو اپنی مرضی سے تبدیل کرنے کی کوشش نہیں کرنی چاہیے۔ بعض اوقات، کچھ چیزیں ایسی ہوتی ہیں جنہیں تنہا چھوڑ دینا ہی بہتر ہوتا ہے۔
آئینے کا آسیب آج بھی چک نمبر 5 کے لوگوں کو یاد ہے۔ وہ ایک ایسی غلطی کی یاد دلاتا ہے جو کبھی نہیں دہرانی چاہیے۔